Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Classic Header

{fbt_classic_header}

بریکنگ نیوز:

latest

مغربی ممالک میں اسلام کا فروغ

  خداوند عالم نے انسان کی سرشت وطبیعت کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اطراف کے مسائل کے بار ےمیں حققیت کے حصول کا درپے رہتا ہے جب ا...

 

خداوند عالم نے انسان کی سرشت وطبیعت کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اطراف کے مسائل کے بار ےمیں حققیت کے حصول کا درپے رہتا ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے اور جب تک موت کی ننید نہيں سوتا اس وقت تک حقیقت کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے ۔ البتہ یہ کوشش ، اس کے ماحول ، سن اور جسمی توانائی و فکری حالات کے تناسب سے ہوتی ہے ۔ بالفاظ دیگر خداوند عالم نےانسانوں کو کمال و سعات اور حقائق و معارف کو درک کرنے کے لئے کافی استعداد اورصلاحیتیں عطا کی ہیں تاکہ انہیں بروئے کار لاتے ہوۓ انسان اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو پاسکے ۔ اس سلسلے میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنہوں نے تحقیق و جستجو کے ذریعے اپنی توانائیوں سے استفادہ کیا ہے اور انہوں نے راہ سعادت و کمال کو حاصل بھی کیا ہے ۔ ان ہی ميں سے ایک امریکی مسلمان خاتون محترمہ " سوزان ابری" ہیں ۔ آج ہم اس نومسلم خاتون کے افکار سے آشنا ہوں گے ۔

 

محترمہ سوزان ابری نے کیتھولیک اور مذہبی خاندان میں آنکھیں کھولیں ۔ ان کے والد اہل مطالعہ تھے ۔ اسی بناء پر انہيں عیسائیت کے اصولوں اور نظریات سے مکمل آشنائی تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ دین مسیحیت میں بہت زیادہ تحریفات انجام پائی ہیں ۔ وہ اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں ، میرے والد نے علم کلام میں پی ایچ ڈي کیا تھا اور ان کا شمار کلیسا کے پادریوں میں ہوتا تھا ۔وہ معتقد تھے کہ جو انجیل لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، اس انجیل سے مختلف ہے جو ویٹیکن میں موجود ہے ۔ انہوں نے ویٹیکن کی انجیل بھی پڑھی تھی اور کہتے تھے اس میں " احمد " کا، آخری پیمغبر کے عنوان سے ذکر کیا گيا ہے ۔ ان دنوں میں میں اپنے والد کی باتیں اچھی طرح سے نہیں سمجھتی تھی لیکن کلیسا میں ان کی باتیں اس بات کاباعث بنی تھیں کہ حکومت کے دباؤ میں رہتے تھے اور کئی بار اسی سبب سے وہ جیل بھی گئے " ۔ سوزان کے والد کی باتوں نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس آخری پیغمبر کےبارے میں تحقیق کریں کہ جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے ۔ وہ جب آخری پیغمبر الہی کی شناخت ميں کوشاں ہوتی ہیں اور تحقیقات انجام دیتی ہيں تو آخرکار ، اسلام سے آشنا ہوجاتی ہیں اور اس بات کو سمجھ جاتی ہیں کہ جس دین کا پیغمبر ختمی مرتبت (ص) نے تعارف کرایا ہے وہ دین اسلام ہے ۔ وہ کہتی ہیں ميں نے اس سےقبل بعض مواقع پر اسلام کا نام سنا تھا ۔ اور اسے امریکہ میں تشدد پسند دین کا نام دیا جاتھا تھا ۔ لیکن ميں نے اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پروپگنڈوں کے باوجود یہ فیصلہ کیاکہ اصلی اور حقیقی منبع و مآخذ کے پیش نظر اسلام کے بارے میں اپنے مطالعے اور تحققیات کو شروع کروں اور میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات ، حقیقت میں ہمارے لئے بہت جاذب اور پرکشش تھیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلامی اور دینی بنیادوں پر نہ صرف ان نظریات کو ، جو دین کو معاشرے کی نابودی اور تباہی کا عامل قرار دیتے ہیں ، باطل قرار دیا ، بلکہ یہ انقلاب لوگوں میں شناخت پیدا کرنے اور فکرکی گہرائی کاسبب بنا۔ آج ، ایران کے اسلامی انقلاب کی برکت سے پوری دنیا بخوبی حریت پسند اور علم و آگہی سے سرشار دین سے آشنا ہوئی ہے اور اس انقلاب نے صدیاں گذرجانے کے بعد بھی ، اسلام کے حقیقی تشخص اور رنگ کو ، جو انقلاب سے قبل کی حکومتوں میں ماند پڑگياتھا، پھر سے ابھار دیا ۔فرانس کے مشہور فلاسفر " میشل فوکو" اسلامی انقلاب کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ایران کے عوام نے اصلاح کے راستے کو اسلام میں پالیا ۔ اسلام ان کے لئے انفرادی اور اجتماعی مسائل و مشکلات کے لئے راہ حل تھا۔ محترمہ سوزان ابری " کا خیال ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے انہیں اسلام کی بہتر اور حقیقی شناخت میں مدد کی ۔ وہ کہتی ہیں "امام خمینی اور ایران کا اسلامی انقلاب مجھے اسلام سے آشنا ہونے کا اہم ترین عامل بنا" جب ميں نے ٹیلیویزن سے امام خمینی کاچہر دیکھا توان کے نورانی چہرے نے مجھے اپنی سمت جذب کرلیا اورمیں نے تو یہ تصور کرلیا گویا حضرت عیسی (ع) لوٹ آئے ہیں ۔ رفتہ رفتہ جب ميں امام خمینی اور ان کے افکار سے آشنا ہوئي تو یہ سمجھ گئی کہ اسلام، کس طرح سے ایک معاشرے کی ہدایت اور آزادی کا سبب قرار پا سکتا ہے ۔ آخرکار تحقیقات اورمطالعے کےبعد سوزان نے یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو اپنے دین کے طور پر انتخاب کریں اور انہوں نے اپنا نام " جمیلہ الفرقان " رکھ لیا ۔ لیکن ایک غیر اسلامی ملک میں اس آسمانی دین کو قبول کرنا ان کے لئے انتہائی سخت تھا اسی لئے وہ کہتی ہیں بہت سی چیزیں میرے لئے سخت تھیں ۔ میں عربی سے واقف نہیں تھی اور ابھی حال ہی میں اسے سیکھا ہے اس لئے تاکہ نماز پڑھ سکوں ۔ میں یہ محسوس کرتی تھی کہ جب تک کہ نماز میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معانی کو بخوبی نہ سمجھ لوں ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ صرف اٹھا بیٹھی کروں ۔ میں بہت افسردہ رہتی تھی کیوں کہ ميں چاہتی تھی کہ جلد از جلد نماز پڑھنا شروع کردوں ۔ ایک دن شہر کی ایک دکان میں گئی وہاں ایک کتاب دیکھی جو انگریزی زبان میں تھی جس کا عنوان تھا " نماز کیسے پڑھوں " ۔ ميں بہت خوش ہوئی جب میں نے چاہا کہ کتاب خریدوں تو جو بک سیلر تھا وہ بھی مسلمان تھا اس نے مجھے وہ کتاب ہدیہ کردی ۔ پھر میں نے اس کتاب سے نماز یاد کی اور سیکھ لی ۔ نماز پڑھنے سے خالق ہستی کی عبودیت اور عبادت کا حسین تصور میرے سامنے آجاتا تھا اور میں اپنے انتخاب سے مطمئن ہوجاتی تھی ۔اوائل میں تو میرا حجاب کامل نہیں تھا صرف ایک اسکارف باندھتی تھی اور پھر بعد میں یہ حجاب مکمل ہوگيا ۔ ان دنوں ، میں ایک ہسپتال میں مڈ وائف تھی ۔وہاں مختلف افکار ونظریات کے لوگ پائے جاتےتھے مثلا وہاں ایک یونیورسٹی پروفیسر تھے جو میرے حجاب کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن جو ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھی اسے میرے پردے پراعتراض تھا اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ماہ رمضان کے بعد اس پردے کو تم اتار دینا کیوں کہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ میں صرف اس مہینے میں ہی سر پر اسکارف باندھتی ہوں لیکن میں نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ حجاب میرے دین کا ایک جز ہے اورمیں ہرگز ایسا نہیں کروں گي ۔ نتیجے میں بہت زیادہ مشکلات مجھے پیش آئیں لیکن حقیقت میں پردے کی میری نظر میں بہت اہمیت اور عظمت تھی اور میں اس کے لئے تمام مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار تھی ۔ آخرکار محترمہ جمیلہ الفرقان نے ، جو مذہب تشیع کی گرویدہ ہوچکی ہیں ، خداوند عالم پر توکل اور اہل بیت پیغمبر سے توسل اور ان سے امداد طلب کرنے کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پالیا۔ اور اس وقت وہ ایک دیندار مسلمان کی حیثیت سے اپنے انفرادی اور اجتماعی کاموں کو بنحو احسن انجام دے رہی ہیں ۔ محترمہ سوزان کہتی ہیں گذشتہ دہائیوں میں خواتین سے متعلق مختلف مسائل منجملہ مذہب کے بارے میں بہت زيادہ تبدیلیوں کا میں نے مشاہدہ کیا لیکن جو مسئلہ میری نظر میں مغربی محققین کی جانب سے تشنہ رہ گیا ہے اور اس کاجواب نہیں دیا گيا ہے ، اسلام کی جانب ، مغربی خواتین کے روز افزون رجحان کا مسئلہ تھا ۔ بہت سے مغربی باشندوں کا خیال ہے کہ اسلام ایک محدود دین ہے اور یہ دین خواتین کو، خواہ وہ ان کی انفرادی زندگي میں ہو یا اجتماعی زندگی میں ، مردوں میں محصور اور ان کا مطیع بناد یتا ہے ۔ اس کے باوجود تعجب آور بات یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بہت سی مغربی، خاص طور پر امریکی خواتین نے اسلام کو قبول کرلیاہے ۔ درحقیقت امریکیوں کی ایک تعداد نے ،کہ جس ميں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ، دین اسلام کو ، ایک باضابطہ دین اور اپنی زندگي گذارنے کی روش کے طور پر انتخاب کیا ہے اور ان کے درمیان خواتین کی تعداد زیادہ ہے ۔ امریکہ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد سے متعلق اعداد وشمار مختلف ہيں لیکن " حقائق " کیلنڈر ( the Alamance book of facts ) میں شائع ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق ، جو ایک معتبر کیلینڈر ہے ، صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ ميں سالانہ ایک لاکھ افراد دین اسلام قبول کررہے ہيں ۔ اور امریکہ اور پوری دنیا میں، اس تعداد میں روز افزوں اضافے کے پیش نظر ، دین اسلام اور اس کی حیات آفریں تعلیمات کی حقانیت کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں