امریکی اور ہانگ کانگ کے ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ جو افراد سینے کی جلن میں پروٹون پمپ انہبیٹرز (پی پی آئیز) کہلانے و...
امریکی اور ہانگ کانگ کے ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ جو افراد سینے کی جلن میں پروٹون پمپ انہبیٹرز (پی پی آئیز) کہلانے والی عام دوائیں استعمال کرتے ہیں، انہیں یہ دوائیں استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 24 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
یہ نتیجہ دو لاکھ سے زائد امریکی شہریوں کی میڈیکل ہسٹری جاننے کے بعد اخذ کیا گیا ہے۔
بتاتے چلیں کہ معدے میں تیزابیت بڑھنے کی وجہ سے بعض مرتبہ غذا کا کچھ حصہ پلٹ کر معدے کے دہانے سے منسلک غذائی نالی (ایسوفیگس) میں داخل ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً سینے کے نچلے حصے میں درد کی ایک شدید لہر محسوس ہوتی ہے جسے ’’سینے میں جلن‘‘ یا ’’ہارٹ برن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ایک عمومی کیفیت ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ مرتبہ سینے میں جلن محسوس ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ کسی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔
سینے میں جلن ختم کرنے کےلیے ’’پی پی آئیز‘‘ قسم کی دوائیں ایسیفیکس، نیکسیئم، پرائیلوسیک، پرویواسڈ اور پروٹونکس جیسے ناموں سے دستیاب ہیں جنہیں ڈاکٹر نسخے کے بغیر بھی بہ آسانی خریدا جاسکتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی 10 دواؤں میں بھی شامل ہیں۔
آن لائن ریسرچ جرنل ’’گٹ‘‘ (Gut) کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی مذکورہ تحقیق چینی صوبے گوانگ ڈونگ میں سُن یاتسین یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جنکوئی یوان کی سربراہی میں کی گئی۔
پی پی آئیز کے بارے میں سابقہ تحقیقات سے یہ تو معلوم ہوچکا ہے کہ اگر ان ادویہ کا استعمال طویل عرصے تک جاری رکھا جائے تو ہڈیاں کمزور پڑنے کے علاوہ گردے کی بیماریاں، نظامِ ہاضمہ میں تعدیہ (انفیکشن) اور معدے کا سرطان تک ہوسکتا ہے۔
اسی تسلسل میں یہ امکان بھی سامنے آیا تھا کہ شاید اس قبیل کی دواؤں سے ذیابیطس بھی ہوسکتی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن تحقیق موجود نہیں تھی۔
تحقیق کی غرض سے ان ماہرین نے امریکا میں دو طویل مدتی طبّی مطالعات سے استفادہ کیا جو بالترتیب 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں شروع ہوئے؛ اور جن کے تحت مطالعے کے شرکاء کو ہر دو سال بعد اپنی صحت، امراض اور ادویہ کے استعمال سے متعلق ایک سوال نامہ بھرنا پڑتا ہے۔
2000 کے بعد سے اس سوال نامے میں پی پی آئیز کے استعمال پر سوالات بھی شامل کیے گئے؛ اور شرکاء سے معلوم کیا گیا کہ وہ ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ مرتبہ یہ ادویہ استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔
مجموعی طور پر ان دونوں مطالعات کے 205,000 شرکاء کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جن میں 176,000 خواتین اور 29,000 مرد شامل تھے۔
ماہرین نے واضح طور پر یہ دیکھا کہ جن افراد نے دو سال تک ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ پی پی آئیز استعمال کی تھیں، ان میں ٹائپ 2 ذیابیطس کی شرح یہ دوائیں استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ تھی۔ لیکن دو سال سے زیادہ عرصے تک (ہفتے میں دو مرتبہ) پی پی آئیز استعمال کرنے والے افراد میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 26 فیصد تک بڑھ گیا تھا۔
سینے کی جلن میں پی پی آئیز لینے والے افراد میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ اوسطاً 24 فیصد زیادہ دیکھا گیا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مریضوں نے پی پی آئیز کا استعمال چھوڑ دیا تو اُن میں ذیابیطس کا خطرہ بھی جلد ہی ختم ہوگیا؛ لیکن جتنے طویل عرصے تک پی پی آئیز کا استعمال جاری رہا، ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ اتنا ہی زیادہ دیکھنے میں آیا۔
اس طرح یہ تحقیق واضح طور پر نہ صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ سینے کی جلن ختم کرنے کےلیے جہاں پی پی آئیز کا زیادہ استعمال طویل مدتی بنیادوں پر تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے، وہیں ان ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ پی پی آئیز عام استعمال کرنے والے مریضوں میں خون کی شکر (بلڈ شوگر) پر بھی نظر رکھی جائے تاکہ ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے پر فوری احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکیں۔
کوئی تبصرے نہیں